Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

ازدواجی خوشگوار تعلقات کیسے؟ (ڈاکٹرزاہد‘لاہور)

ماہنامہ عبقری - جولائی 2011ء

اکثر ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ کام کا دبائو جنسی خواہش کو دبانے یا کم کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ مرد عموماً جنس کو تفریح اور رنگ رلی خیال کرتے ہیں جبکہ عورتیں جنس کو ایسی سرگرمی سمجھتی ہیں جس میں ان کو اپنی بہترین کارکردگی دکھانی پڑتی ہے۔ لوگوں کو ایک عام شکایت یہ رہتی ہے کہ جسم ان کی جنسی خواہشات کا ساتھ نہیں دیتا۔ وہ زیادہ سرگرمیاں چاہتے ہیں۔ جسم ان کو روک لیتا ہے۔ ہماری روایتی طب کا سب سے بڑا مسئلہ بعض لوگوں کے نزدیک جنسی اعضاءکو نئی زندگی اور نئی قوت عطا کرنے والی دوائیں تیار کرنا رہا ہے۔ صدیوں سے ان گنت حکیم اور سنیاسی اس قسم کی دوائیں تیار کرنے یا جڑی بوٹیاں ڈھونڈنے کے ڈھول بجاتے رہے ہیں۔ بادشاہ اور امراءہر زمانے میں ان کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ مغربی دنیا میں بھی قوت بخش ادویات کی تیاری پر توجہ دی جاتی رہی ہے۔ اب کچھ عرصے سے ایک نئی قسم کی جنسی شکایت کا چرچا ہونے لگا ہے۔ اس کو آپ ازدواجی رُکھائی یا بے نیازی کا نام دے سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ اور خاص طور پر عورتیں یہ شکایت کرنے لگی ہیں کہ جنس میں ان کی دلچسپی اور رغبت ختم ہورہی ہے۔ وہ ازدواجی خواہش سے محروم ہورہی ہیں‘ کبھی کبھار کوئی خواہش بیدار ہوتو بھی اس میں کوئی شدت نہیں ہوتی۔ ازدواجی عمل ان کیلئے روکھا پھیکا اور بے لطف بن کر رہ گیا ہے۔ بڑے شہروں میں یہ شکایت دیہی اور قصباتی علاقوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ یہ نیا مسئلہ تشویش‘ کھچائو ‘ بوریت‘ اضطراب‘ توجہ کے انتشار زندگی کے غیر ضروری بوجھ‘ مصروفیات کے انبار اور ذہنی پریشانیوں کی وجہ سے پیدا ہورہا ہے۔ گویا غیر فطری زندگی نے اس روگ کو جنم دیا ہے اس کے سبب ازدواجی زندگی متاثر ہورہی ہے۔ عام طور پر میاں بیوی دونوں بیک وقت جنسی رُکھائی کا شکار نہیں ہوتے۔ فرض کیجئے کہ ایسا ہوجائے تو بھی ازدواجی زندگی میں بے رخی اور بے نیازی پیدا ہوتی ہے اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک اس روگ کی زد میں آجائے تو لازمی طور پر الجھنیں پیدا ہوتی ہیں جو فطری اور خوشگوار انداز میں ازدواجی زندگی بسر کرنے کو کم و بیش ناممکن بنادیتی ہے۔ لہٰذا اس مضمون میں ہم اس مسئلے کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ ہم کو اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ معالجین کا کہنا ہے کہ جنس کے جسمانی پہلو سے تعلق رکھنے والے مسائل کو حل کرنا آسان ہے مگر ازدواجی رُکھائی بنیادی طور پر نفسیاتی مسئلہ ہے لہٰذا یہ زیادہ پیچیدہ ہے۔ بہرحال اس حوالے سے بنیادی سوال یہ ہے کہ ازدواجی خواہش یا تحریک کو کس طرح بیدار کیا جاسکتا ہے؟ جب ازدواجی زندگی بے کیف ہوجائے اورخواہش ختم ہونے لگے تو پھر اس میں نئی روح کس طرح پھونکی جاسکتی ہے اور دوبارہ کس طرح لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے؟ کئی سال پہلے جنسی امور کے شہرہ آفاق مغربی ماہر ڈاکٹر ولیم ماسٹرز نے اس کا ایک سیدھا سادا جواب دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ خواہش کی کمی کو دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو ایک نیا خیال دیا جائے۔ ان کو ایک نیاطرز حیات اختیار کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ دبائو دور کیجئے! اکثر ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ کام کا دبائو ازدواجی خواہش کو دبانے یا کم کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ مرد عموماً جنس کو تفریح خیال کرتے ہیں جبکہ عورتیں جنس کو ایسی سرگرمی سمجھتی ہیں جس میں ان کو اپنی بہترین کارکردگی دکھانی پڑتی ہے۔ مستقل تھکن‘ غیرضروری مصروفیت‘ کام کی زیادتی اور جذبات کی کمی کے باعث اکثر لوگ اور خاص طور پر عورتیں اس اضافی توانائی سے محروم ہوجاتی ہیں جو صحت مند ازدواجی سرگرمی اور لطف اٹھانے کیلئے ضروری ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے جوڑے فرائض کے پہاڑ تلے دبے رہتے ہیں۔ معیار زندگی کو بلند کرنے کی پاگل دوڑ نے بہت سے لوگوں کو فطری تقاضوں پر مناسب توجہ دینے سے روک دیا ہے۔ ان کو اپنے آپ کو بنانے سنوارنے اور جسم کیلئے فرصت ملتی ہے اور نہ ہی وہ اس کو اہمیت دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ازدواجی خواہش معدوم ہونے لگتی ہے۔ اکثر لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ازدواجی خواہش چونکہ بھوک پیاس کی طرح بنیادی ضرورت ہے۔ لہٰذا وہ ختم ہوتی ہے اور نہ ہی کمزور پڑتی ہے مگر ایسا نہیں ہے جنس کو نظرانداز کرنے والے جوڑوں کو اپنی غلطی کا احساس عموماً دیر سے ہوتا ہے۔ تب بہت سا وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ بعض عورتیں اور مرد جنسی صلاحیت میں کسی خامی کے باعث بھی ازدواجی تعلق سے بے زار ہوجاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بعض عورتوں کو زندگی میں کبھی انزال کا تجربہ نہیں ہوتا۔ شادی کے ابتدائی زمانے میں وہ انزال کے مرحلے تک پہنچنے کیلئے ہاتھ پائوں مارتی ہیں لیکن مسلسل ناکام رہنے کی وجہ سے وہ اس ساری جدوجہد سے مایوس ہوجاتی ہیں وقت کے ساتھ ساتھ یہ مایوسی بے نیازی کا رنگ اختیار کرنے لگتی ہے۔ جبر کو ختم کیجئے عورتوں میں ازدواجی تحریک کے کمزور ہونے کی ایک اور وجہ خاص طور پر ہمارے معاشرے میں یہ ہے کہ جنس ان کیلئے مساوی شراکت کا موقع مہیا نہیں کرتی۔ جب ان کا اپنا جی چاہے تو وہ اظہار نہیں کرسکتیں ۔ گویا ازدواجی تعلق کو ان فرائض میں شامل کرلیا گیا ہے جن کو شوہر کے حکم پر پورا کرنا لازمی سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح یہ تعلق اوپر سے ٹھونسا جانے والا حکم بن جاتی ہے۔ لہٰذا کئی عورتیں لاشعوری طور پر اس سے متنفر ہوجاتی ہیں۔ ازدواجی تعلق سازگار ماحول چاہتا ہے۔ میاں بیوی سازگار ماحول نہ بناسکیں تو جنس لطف و مسرت کا سرچشمہ نہیں رہتی۔ اسی طرح اگر فرد کی زندگی مسلسل ناکامیاں مایوسیوں اور حسرتوں کا شکار ہوجائے تو ان کا منحوس سایہ ازدواجی تعلق پر بھی پڑتا ہے اور فرد آہستہ آہستہ رُکھائی کا شکار ہونے لگتا ہے۔ نفسیات کے ایک ماہر نے لکھا ہے کہ مباشرت کے دوران لوگوں کے ذہن میں مختلف قسم کے خیالات اور احساسات ابھرتے ہیں اگر یہ احساسات اور خیالات مسلسل منفی قسم کے رہیں یعنی ان کا تعلق زندگی کی تلخیوں‘ ناکامیوں‘ محرومیوں اور حسرتوں سے ہو تو پھر وہ جنس سے بیزاری پیدا کرنے لگتے ہیں اور ازدواجی تحریک کو کمزور کردیتے ہیں ان خیالات و احساسات پر قابو پاکر آپ ازدواجی رکھائی کو کم کرسکتے ہیں۔اچھی خبر یہ ہے کہ ازدواجی رکھائی عموماً عارضی ہوتی ہے جب اس کو پیدا کرنے والا سبب ختم ہوجائے تو ساتھ ہی رُکھائی رخصت ہوجاتی ہے۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 302 reviews.